Monday, October 31, 2022

تعویذات و دم وغیرہ کی شرعی حیثیت - Taveezat aur dum ki shara’ee haisiyat

 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين وعلى آله وصحبه أجمعين أما بعد

سوال:-

دَم اور تعویذ کی شرعی حیثیت

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ  ایک حدیث مبارک ہے کہ جس کا مفہوم ہے: قیامت والے دن میری امت  میں سے 70 ہزار افراد بغیر حساب و کتاب جنت میں داخل ہوں گے اور  وہ دم وغیرہ  نہیں کرتے ہوں گے اور بدشگونی نہیں لیتے ہوں گے اور  اپنے رب تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرتے ہوں گے۔(بخاری وغیرہ ) اس حدیث  مبارک کے ضمن میں میرے  درج ذیل سوالات ہیں:

(1)   تعویذات  و دم وغیرہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

 (2)   اگراجازت ہے، تو ذکر کردہ  حدیث مبارک کا کیا مطلب ہو گا، کیونکہ اس سے تو تعویذات کی ممانعت ثابت ہو رہی ہے؟

جواب:-

واضح رہے کہ صحت اور بیماری انسان کی زندگی کا حصہ ہیں ۔ بیماری بھی اللہ ہی پیدا کرتا ہے اور صحت و شفاء بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ جس طرح بیماری کی صورت میں دوائی کا استعمال جائز ہے اسی طرح تعویذ اور دم بھی جائز ہے اور اس کے جواز پر اجماع ہے۔ شریعتِ مطہرہ میں قرآنی آیات و احادیث مبارکہ پر مشتمل یا ایسے کلمات پر مشتمل تعویذات جو شرک اور خلاف شرع بات نہ ہوں جائز ہیں، اگر کسی عجمی زبان میں ہو تو اس کے الفاظ کے معنی معلوم ہو اور خلاف شرع بات نہ ہوں تو جائز ہیں، البتہ اگر تعویذ کسی بھی خلاف شرع بات پر مشتمل ہو یا ایسے الفاظ پر مشتمل ہو کہ جس کا معنی ہی معلوم نہ ہو تو ایسے تعویذات وغیرہ کی اجازت نہیں ہے۔

اس بات کا خاص خیال رہے کہ تعویذات کے الفاظ قرآن کریم سے ہوں یا اللہ کے اسماء و صفات سے ہوں اور دم کرنے اور کرانے والا دونوں یہ عقیدہ رکھیں کہ تعویذ صرف بیماری کو ختم کرنے کا ذریعہ ہے بلكہ مؤثر حقیقی صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔

جہاں ہمیں بعض احادیث میں تعویذات کا جواز ملتا ہے وہیں بعض احادیث میں ممانعت آئی ہے۔

وہ دم اور تعویذات مکروہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے مقدس ناموں سے اور اس کی صفات و کلام سے نہ ہوں۔

 دم و تعویذات کے جواز پر مشتمل قرآنی آیات و احادیث:-

 "وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ"

(سورة بني اسرائيل آية 82)

ترجـمہ:

’’اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔‘‘

 جیسا کہ تفسیر روح المعانی میں اس آیت مبارکہ کے تحت ہے:

’’قال مالک: لا باس بتعلیق الکتب التی فیھا اسماء اللہ تعالی علی اعناق المرضی علی وجہ التبرک بھا اذا لم یرد معلقھا بذلک مدافعۃ العین، وعنی بذلک انہ لا باس بالتعلیق بعد نزول البلاء رجاء الفرج والبر، کالرقی التی وردت السنۃ بھا من العین، واما قبل النزول ففیہ باس وھو غریب، وعند ابن المسیب یجوز تعلیق العوذۃ من کتاب اللہ تعالی فی قصبۃ ونحوھا وتوضع عند الجماع وعند الغائط، ولم یقید بقبل او بعد، ورخص الباقر فی العوذۃ تعلق علی الصبیان مطلقاً وکان ابن سیرین لا یری باساً بالشیء من القرآن یعلقہ الانسان کبیراً او صغیراً مطلقاً وھو الذی علیہ الناس قدیماً وحدیثاً فی سائر الامصار‘‘.

ترجمہ: امام مالک علیہ الرحمۃ  فرماتے ہیں: ایسا تعویذ جس میں اللہ عزوجل کے اسماء موجود ہوں، مریضوں کے گلے میں بطورِ تبرّک لٹکانے میں کوئی حرج نہیں، جبکہ اس سے مدافعۃ العین کا ارادہ نہ کرے، اس سے مراد یہ ہے کہ نزول بلا کے بعد اس کے دور ہونے کی امید کرتے ہوئے لٹکانے میں حرج نہیں جیسے نظر کا وہ دم جس کے متعلق سنت وارد ہوئی ہے، بہر حال نزولِ بلا (مصیبت آنے ) سے قبل، تو اس میں حرج ہے، (لیکن) یہ قول غریب ہے، حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کے نزدیک کتاب اللہ سے لکھا ہوا تعویذ ڈبیہ وغیرہا میں لٹکانا، جائز ہے جسے جماع  کے وقت اور بیت الخلاء جاتے ہوئے اتار دیا جائے، انہوں نے نزولِ بلا سے قبل و بعد کی کوئی قید نہیں لگائی، امام باقر علیہ الرحمۃ نے بچوں کے لئے مطلقاً تعویذ لٹکانے کی اجازت عطا فرمائی اور امام ابن سیرین علیہ الرحمۃ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ قرآن کریم میں سے لکھا ہوا تعویذ انسان کو لٹکایا جائے، چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا، اسی پر پرانے اور نئے زمانے کے تمام شہروں کے لوگوں کا اعتقاد ہے۔

(دار الافتاء اہلسنت ـ دعوت اسلامي)

سنن أبوداؤد کی روایت میں ہے:

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعَلِّمُهُمْ مِنَ الْفَزَعِ كَلِمَاتٍ:‏‏‏‏ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرٍو يُعَلِّمُهُنَّ مَنْ عَقَلَ مِنْ بَنِيهِ وَمَنْ لَمْ يَعْقِلْ كَتَبَهُ فَأَعْلَقَهُ عَلَيْهِ.

ترجـمہ:

جناب عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ڈر یا گھبراہٹ کے موقع پر انہیں یہ کلمات سکھایا کرتے تھے «أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وشر عباده ومن همزات الشياطين وأن يحضرون» ’’ میں اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں ‘ اس کی ناراضی سے ‘ اس کے بندوں کی شرارتوں سے ‘ شیطانوں کے وسوسوں سے اور اس بات سے کہ وہ میرے پاس آئیں ۔‘‘ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اپنے سمجھدار بچوں کو یہ کلمات سکھا دیا کرتے تھے اور جو ناسمجھ ہوتے ‘ انہیں لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیتـے ۔ 

حديث شريف:

و حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ عَنْ سُفْيَانَ ح و حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا حَسَنٌ وَهُوَ ابْنُ صَالِحٍ كِلَاهُمَا عَنْ عَاصِمٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَنَسٍ قَالَ رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرُّقْيَةِ مِنْ الْعَيْنِ وَالْحُمَةِ وَالنَّمْلَةِ وَفِي حَدِيثِ سُفْيَانَ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ

(صحيح مسلم)

ترجـمہ:

 سفیان اور حسن بن صالح دونوں نے عاصم سے ، انھوں نے یوسف بن عبداللہ سے ، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ ﷺ نے نظر بد ، (بچھو) زہریلے ڈنک اور جلد پر نکلنے والے دانوں (پھوڑے پھنسی) میں دم کرنے کی اجازت دی ۔

 حديث شريف:

نهٰی رسُولُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم عنِ الرُّقی، فجاء آل عمرو بن حزم اِلی رسول صلی الله عليه وآله وسلم فقالوا يارسول اللہ اِنّه کانت عندنا رقيةً نرقی بها من العقرب وانک نهيت عن الرقی قال فَعَرضُوْهَا عليه فقال ما أری بأسا من استطاع منکم أنْ ينفعَ اُخاه فَلْيَنْفَعْهُ.

(صحيح مسلم)

ترجـمہ:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے منع فرمایا، عمرو بن حزم کے خاندان والوں نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی یا رسول اللہ! ہمارے پاس ایک وظیفہ تھا، جس سے ہم بچھو کے کاٹے کو جھاڑتے تھے اور آپ نے جھاڑ پھونک سے منع فرما دیا ہے، ان لوگوں نے وہ ورد وظیفہ سرکار کے سامنے پیش کیا، فرمایا مجھے تو اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی، تم میں جو کوئی اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکے اسے ضرور نفع پہنچائے۔‘‘

"مذکورہ بالا قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ جائز کلمات یا جائز عمل پر مشتمل  تعویذ  یا دم وغیرہ  بالکل جائز ہے"

" البتہ سوال میں بیان کردہ حدیث سے وہ تعویذات و دم کی ممانعت ہے جس میں شرکیہ و کفریہ کلمات ہوں" لہٰذا جس میں ایسی کچھ خلافِ شرع بات نہ ہو، اس کی ممانعت نہیں ہے۔ جيسا كہ عمرو بن حزم والي حديث سے ثابت ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جائز كلمات پر مشتمل تعویذات وغیرہ کی اجازت عنايت فرمائي جن احاديث میں ممانعت کا ذکر ہے وه کفریہ اور شرکیہ کلمات والے تعویذات ہیں اور ممانعت والی روایات منسوخ ہیں اور اجازت والی ناسخ ہیں۔

 (شرح صحیح مسلم ممانعت کی مختلف توجیہات کے ضمن میں ایک توجیہ یہ بیان فرمائی گئی ہے: ” كان نهى أولا ثم نسخ ذلك وأذن فيها وفعلها واستقر الشرع على الإذن “ترجمہ: اولاً ممانعت تھی، پھر اسے منسوخ کر دیا گیا اور اس کی اجازت دے دی گئی  اور شریعت مطہرہ نے اجازت کو باقی رکھا۔(شرح النووی علی المسلم، ج14، ص168، دار احیاء التراث العربی)

(دار الافتاء اہلسنت)

Sawal:-

Dum aur Taveez ki shara’ee haisiyat

Kya farmate hain Ulama e deen is bare main keh ek hadees Mubarak hai keh jis ke mafhoom hai: Qiyamat wale din meri ummat mian se 70 hazar afrad bagair hisab wo kitaab Jannat main dakhil honge aur wo dum wagairah nahi karte honge aur bad-shugni nahi lete honge aur apne Rab ta’aala par hi bharosah karte honge – (Bhukhari) Is hadees e Mubarak ke ziman main mere darj e zial sawalat hain:

 (1)   Taveezat aur dum wagairah ki shara’ee haisiyat kya hai?

(2)   Agar ijazat hai, to zikar kardah hadees mubarak ka kya matlab ho ga, kyun kay is se to taveezat ki momaniat saabit ho rahi hai?

Jawab:

Wazeh rahay ke sehat aur bemari insaan ki zindagi ka hissa hain.

Bemari bhi Allah hi paida karta hai aur sehat o Shifa bhi isi ke haath mein hai. Jis tarha bemari ki soorat main dawai (medicine) ka istemaal jaaiz hai usi terhan taveez aur dam bhi jaaiz hai aur is ke jawaz par ijma hai. Shariat-e-Mutahhara main Qurani ayaat o Ahadees mubarakah par mushtamil ya aisay kalmaat par mushtamil taveezat jo shirk aur khilaaf sharaa baat naa hon jaaiz hain, agar kisi ajami zabaan main ho to is ke alfaaz ke maienay (meanings) maloom ho aur khilaaf sharaa baat naa hon to jaaiz hain, Albatta agar taveez kisi bhi khilaaf sharaa baat par mushtamil ho ya aisay alfaaz par mushtamil ho ke jis ka maienay (meanings) hi maloom naa ho to aisay taveezat waghaira ki ijazat nahi hai.

Is baat ka khaas khayaal rahay ke taveezat ke alfaaz Quran-e-kareem se hon ya Allah ke Asma  O sifaat se hon aur Dam karne aur karanay wala dono yeh aqeedah rakhen ke taveez sirf bemari ko khatam karne ka zareya hai balkeh mua’asir-e-haqeeqi sirf Allah ta’ala ki zaat hai.

Jahan hamain baaz ahadees main taveezat ka jawaz milta hai wahein baaz ahadees main mumaniat aayi hai.

Woh Dam aur Taveezat makrooh hain jo Allah ta’ala ke muqaddas naamon se aur us ki sifaat O kalaam se naa hon.

 Dam aur Taveezat ke jawaz par mushtamil Quraani aayaat O Ahadees:

"وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ"

(Surah Bani Israel, verse 82)

 Tarjumah:

“Aur hum Quran main wo cheez nazil karte hain jo momino ke liye shifa aur rahmet hai”.

 Jaisa ke Tafseer Roohul Maani main is aayat mubarikah ke tehat hai:

’’قال مالک: لا باس بتعلیق الکتب التی فیھا اسماء اللہ تعالی علی اعناق المرضی علی وجہ التبرک بھا اذا لم یرد معلقھا بذلک مدافعۃ العین، وعنی بذلک انہ لا باس بالتعلیق بعد نزول البلاء رجاء الفرج والبر، کالرقی التی وردت السنۃ بھا من العین، واما قبل النزول ففیہ باس وھو غریب، وعند ابن المسیب یجوز تعلیق العوذۃ من کتاب اللہ تعالی فی قصبۃ ونحوھا وتوضع عند الجماع وعند الغائط، ولم یقید بقبل او بعد، ورخص الباقر فی العوذۃ تعلق علی الصبیان مطلقاً وکان ابن سیرین لا یری باساً بالشیء من القرآن یعلقہ الانسان کبیراً او صغیراً مطلقاً وھو الذی علیہ الناس قدیماً وحدیثاً فی سائر الامصار‘‘.

Tarjumah:

Imam Malik (Alaihi Rahma) farmate hain: Aisa taveez jis main Allah azzawajal ke Asma maujood hon, mareezon ke galay main bataur tabarrook latkanay main koi harj nahi, jabkay us se mudafiatul aayin ka iradah naa kere, is se muraad yeh hai ke nuzool-e-balaa ke baad us ke door honay ki umeed karte hue latkanay main harj nahi jaisay nazar ka woh dam jis ke mutaliq sunnat warid hui hai , bahar haal nuzool-e-balaa (museebat anay) se qabal, to is main harj hai, (lekin) yeh qaoul ghareeb hai, hazrat Saeed bin Musayyab (Razi Allahu Anho) ke nazdeek kitaab-ul-Allah se likha huwa taveez dibiya (small box) main latkaana, jaiz hai. jisay jimaa ke waqt aur bait-ul-khala jatay huve utaar diya jaye, Unhon ne nuzool-e-balaa se qabal o baad ki koi qaid nahi lagai, Imam baqar (alaihi-al-rahmah) ne bachon ke liye mutlaqan taveez latkanay ki ijazat ataa farmai aur Imam Ibn Sireen (alaihi-al-rahmah) is main koi harj nahi samajte thay ke quran kareem main se likha huwa taveez insaan ko latkaya jaye, chahay woh bada ho ya chhota, isi par puranay aur naye zamane ke tamam shehron ke logon ka aitqaad hai.

(Dar-ul-Ifta Ahl-e-Sunnat - Dawateislami)

 Sunan Abu-Dawood ki riwayat mein hai:

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعَلِّمُهُمْ مِنَ الْفَزَعِ كَلِمَاتٍ:‏‏‏‏ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرٍو يُعَلِّمُهُنَّ مَنْ عَقَلَ مِنْ بَنِيهِ وَمَنْ لَمْ يَعْقِلْ كَتَبَهُ فَأَعْلَقَهُ عَلَيْهِ.

Tarjumah:

Janab Amr bin Shoiab apne waalid se woh apne dada se riwayat karte hain ke Rasool Allah darr ya ghabrahat ke mauqa par unhen yeh kalmaat sikhaya karte thay,

«أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وشر عباده ومن همزات الشياطين وأن يحضرون»

“Mein Allah ke kaamil kalmaat ki panah main aata hon, Us ki narazi se, is ke bandon ki shararaton se, shaitano ke waswason se aur is baat se ke woh mere paas ayen.” Chunanche Hazrat Abdullah bin Amr (Razi Allahu Anhuma) apne samajh-daar bacchon ko yeh kalmaat sikha diya karte thay aur jo na-samajh hotay, unhen likh kar un ke gilaay main daal detay.

Hadees Shareef:

و حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ عَنْ سُفْيَانَ ح و حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا حَسَنٌ وَهُوَ ابْنُ صَالِحٍ كِلَاهُمَا عَنْ عَاصِمٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَنَسٍ قَالَ رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرُّقْيَةِ مِنْ الْعَيْنِ وَالْحُمَةِ وَالنَّمْلَةِ وَفِي حَدِيثِ سُفْيَانَ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ

(صحيح مسلم)

 Tarjumah:

Sufyan aur Hasan bin Saleh dono ne Asim se, unhon ne Yousuf bin Abdullah se, unhon ne Hazrat ans (Razi Allahu Anho) se riwayat ki, kaha: Rasool Allah ne nazar bad, (bichhoo) zahreeley dank aur jild (skin) par nikalney walay daano (Phoday phunsi) main dam karne ki ijazat di.

  

Message ke salam ka jawab kaisay den 

Hadees Shareef:

حديث شريف:

نهٰی رسُولُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم عنِ الرُّقی، فجاء آل عمرو بن حزم اِلی رسول صلی الله عليه وآله وسلم فقالوا يارسول اللہ اِنّه کانت عندنا رقيةً نرقی بها من العقرب وانک نهيت عن الرقی قال فَعَرضُوْهَا عليه فقال ما أری بأسا من استطاع منکم أنْ ينفعَ اُخاه فَلْيَنْفَعْهُ.

(صحيح مسلم)

Tarjumah:

“Rasool-Allah () ne jhaad phoonk se mana farmaya, Amr bin Hazm ke khandan walon ne haazir khidmat ho kar arz ki ya Rasool-Allah! hamaray paas ek wazifa tha, jis se hum bichhoo ke katay ko Jhaadte thay aur aap ne jhaad phoonk se mana farma diya hai, un logon ne woh vird wazifa Sarkar ke samnay paish kya, farmaya mujhe to is main koi kharabi nazar nahi aati, tum main jo koi apne bhai ko nafaa pouncha sakay usay zaroor nafaa pohanchaye.”

"mazkoorah baala Quran O Hadees ki roshni main yeh saabit hota hai ke jaaiz kalmaat ya jaaiz amal par mushtamil taveez ya dam waghera bilkul jaaiz hai"

"Albata sawal main bayan kardah hadees se woh taveezaat aur dam ki momaniat hai jis main shirkiya aur kufria kalmaat hon" lehaza jis main aisi kuch khlaf-e-sharaa baat nah ho, is ki momanat nahi hai. Jaisa keh Amr bin Hazm wali hadees se saabit hai.

Allah ke rasool ne jaaiz kalmat par mushtamil taveezat waghera ki ijazat inayat farmai, jin Ahadees main momanat ka zikar hai woh kufria aur shirkiya kalmaat walay taveezat hain aur momanat wali riwayaat mansookh hain aur ijazat wali Nasikh hain.

(Sharah Sahih Muslim momanat ki mukhtalif tojihat ke zimn mein aik tojeeh yeh bayan farmai gayi hai:

” كان نهى أولا ثم نسخ ذلك وأذن فيها وفعلها واستقر الشرع على الإذن“

Tarjumah: Awwalan momanat thi, phir use mansokh kar diya gaya aur is ki ijazat de di gayi aur shariat-e-mutahharah ne ijazat ko baqi rakkha.

(Dar-ul-Ifta Ahl-e-Sunnat - Dawateislami)

Share, like twitter Pinterest

واللہ ورسولہ اعلم ، عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم

مولوي حافظ محمد عظمت الله نظامي عفی عنہ 

Follow this bolg

Fiqhi Masail-Namaz, Roza, Zakat & Digar ke liye yaha click karen

Contact karne ke liye yaha click karen

Allah walon se dosti karna chahate hain to yaha click karen

Dua & Wazaif ke liye yaha click karen

Naat sharee & Salaam ke liye yaha Click karen

Friday, October 28, 2022

میسج کے سلام کا جواب کیسے دیں؟ - Message ke salam ka jawab kaisay den?

 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين وعلى آله وصحبه أجمعين أما بعد

سوال:-

السلام علیکــــــــم و رحمتہ اللهِ وبرکاتہ

کوئ سلام کرے تو جواب دینا کیا ہے؟

میسج کے سلام کا جواب کیسے دیں؟

کیا میسج پر بھی سلام کا جواب دینا، زبان سے دینا یا مسیج کے ذریعئے دینا ، کیسے جواب دینا صحیح ہے رہنمائ فرمایں؟

 

 Sawal:-

Assalamu Alaikum wa Rahmatullahi wa Barakatuh

Message ke salam ka jawab kaisay den?

Koi salam kere to jawab dena kya hai?

Kya Message par bhi salam ka jawab dena, zabaan se dena ya message ke zarye dena, kaisay jawab dena saheeh hai rahnumayi farmayen?

 

Salam karne ka sunnat tareeqah - سلام کرنے کا سنت طریقہ

 

 جواب:-

وعليكم السلام و رحمتہ الله وبركاتہ

قرآن شريف: الله تعالى ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَا اَوْ رُدُّوْهَا

ترجمہ:

اور جب تمہيں كوئى سلام كرے تو تم اسكو اس سے بهتر لفظ سے جواب دو يا وہى كہہ دو.

حدیث شريفابو هریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مسلمان پر مسلمان کے پانچ حق ہیں :

            ۱ سلام کا جواب دینا

            ۲ مریض کے پوچھنے کو جانا

            ۳ جنازے کے ساتھ جانا

            ۴ دعوت قبول کرنا

        ۵  چھینکنے والے کا جواب دینا ۔ (جب وه اَلْحَمْدُللہ کہے)

مسئلہ:  سلام کا جواب فوراً دینا واجب ہے، بلاعذر تاخیر کی تو گنہگار ہوا اور یہ گناہ جواب دینے سے دفع نہ ہوگا، بلکہ توبہ کرنی ہوگی۔ (درمختار، ردالمحتار)

(بهار شريعت)

خط میں سلام لکھا ہوتا ہے اس کا بھی جواب دینا واجب ہے اور یہاں جواب دو طرح ہوتا ہے، ایک یہ کہ زبان سے جواب دے، دوسری صورت یہ ہے کہ سلام کا جواب لکھ کر بھیجے۔ مگر چونکہ سلام كا جواب فوراً دینا واجب ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا تو اگر فوراً تحریری جواب نہ ہو جیسا کہ عموما یہی ہوتا ہے کہ خط کا جواب فوراً ہی نہیں لکھا جاتا خواہ مخواہ کچھ دیر ہوتی ہے تو زبان سے جواب فوراً دے دے، تاکہ تاخیر سے گناہ نہ ہو۔ اسی وجہ سے علامہ سید احمد طحطاوی نے اس جگہ فرمایا: وَالنَّاسُ عَنْہُ غَافِلُوْنَ۔ یعنی لوگ اس سے غافل ہیں۔ (بهار شريعت)

میسج کے سلام کا حكم بهي یہی ہے جیسے اوپر بیان کیا گیا ہے۔

ميسج پر کیے گئے سلام کا جواب دینے کے دو طریقے ہیں ۔ اگر اس کا جواب لکھ کر دے یا زبان سے ، اور بہتر یہی ہے کہ جیسے ہی کسی کا سلام موصول ہو ، فوراً زبان سے سلام کا جواب دیدے ، تاکہ تاخیر کی وجہ سے گنہگار نہ ہو- اور پھر ميسج پر بھی سلام کا جواب دے ، تاکہ وہ شخص کسی بدگمانی کا شکار نہ ہو۔

اعلیٰ حضرت قبلہ قدس سرہ جب خط پڑھا کرتے تو خط میں جو السَّلام عَلَیْکُمْ لکھا ہوتا ہے اس کا جواب زبان سے دے کر بعد کا مضمون پڑھتے۔

(بهار شريعت)

 

 Gair Muslim ki Dawat qubool karna? Aur Daftar (Office) main zohrana (Lunch) milkar karna kya jaiz hai? - غیر مسلم کی دعوت قبول کرنا ؟ اور دفتر (آفس) میں ظہرانہ ملکر کرنا کیا جائز ہے؟

Jawab:-

Walaikum Assalam wa Rahmatullahi wa Barakatuh

Quran shareef:

Allah pak ka irshad hai:

 وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَا اَوْ رُدُّوْهَا

Tarjumah:

Aur jab tumhen koi salam kare to tum usko us se baheter laf se jawab do ya wahi kahdo.

 

Hadees shareef: Abu Huraira (Razi Allahu Anhu) se rivayat hai, Huzoor-e-Aqdas (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) farmatay hain: Musalman par musalman ke paanch haq hain:

1 - Salam ka jawab dena

2- Mareez ke poochnay ko jana

3- Janazay ke sath jana

4- Dawat qubool karna

5- Chhenknay walay ka jawab dena. (Jab woh الْحمْدللہ kahe)

Mas’alah: Salam ka jawab fauran dena wajib hai, Bila-Ozr takheer ki to gunah-gaar huwa aur yeh gunah jawab dainay se dafaa nah hoga, balkay tauba karni hogi. (Raddul muhtar, Durr-e-mukhtar )

(Bahar-e-Shari’at)

Khat (Letter) main salam likha hota hai us ka bhi jawab dena wajib hai aur yahan jawab do tarhan hota hai, Ek yeh ke zabaan se jawab day, doosri soorat yeh hai ke salam ka jawab likh kar bheje. magar chunkay salam ka jawab faoran dena wajib hai jaisa ke oopar mazkoor huwa to agar faoran tehreeri (written) jawab nah ho jaisa ke Umuman yahi hota hai ke khat (letter) ka jawab faoran hi nahi likha jata kuch der hoti hai to zabaan se jawab faoran day day, taakay takheer se gunah nah ho. isi wajah se allama syed Ahmed Tahtawi ne is jagah farmaya: والناس عنْہ غافلوْن  - yani log is se ghaafil hain. (Bahar-e-Shari’at)

Message ke salam ka Hukum bhi yahi hai jaisay uopar bayan kya gaya hai.

Message par kiye gaye salam ka jawab denay ke do tareeqay hain.  Aagar is ka jawab likh kar day ya zabaan se, aur behtar yahi hai ke jaisay hi kisi ka salam receive ho, faoran zabaan se salam ka jawab deday, taakay takheer ki wajah se gunah-gaar nah ho aur phir Message par bhi salam ka jawab day, taakay woh shakhs kisi bad-gumaani ka shikaar nah ho.

Aala hazrat Imam Ahmed Razaرح jab khat (letter) pardha karte to khat (letter) main jo salam likha hota hai us ka jawab zabaan se day kar baad ka mazmoon parhte.

(Bahar-e-Shari’at)

واللہ ورسولہ اعلم ، عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم

مولوي حافظ محمد عظمت الله نظامي


Popular posts